تین دن قید رکھنے کے بعد جب امیگریشن نے مجھے رہا کیا تو میں گھر جانا چاہتا تھا۔مجھے گھر کی یاد ستا رہی تھی۔ وہ تین دن جس طرح بتائے تھے یوں لگ...
تین دن قید رکھنے کے بعد جب امیگریشن نے مجھے رہا کیا تو میں گھر جانا چاہتا تھا۔مجھے گھر کی یاد ستا رہی تھی۔ وہ تین دن جس طرح بتائے تھے یوں لگتا تھا جیسے میں ایک مجرم ہوں جس کو قید خانے میں رکھا گیا ہے۔ باہر نکلتے ہی سم خریدی اور بیگم کو واٹس ایپ ویڈیو کال ملا دی۔ وہ میری صورتحال سے پریشان تھی۔ مجھے دیکھ کر اسے تسلی ہوئی۔ بات کرتے اچانک میری بیٹی جو ٹیوشن پڑھنے گئی ہوئی تھی، واپسی پر گھر داخل ہوئی اور اس نے دیکھا کہ اس کے بابا فون پر بات کر رہے ہیں تو فوری بیگ رکھ کر آئی اور ماما سے موبائل لے لیا۔
اس وقت میری حالت ایسی بنی ہوئی تھی جو بیان کرنے کے قابل نہیں۔ شیو بڑھ چکی تھی۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ ایسی پریشان کن حالت میں اس نے مجھے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی بولی
“بابا۔ آپ جلدی گھر واپس آئیں۔ ابھی کے ابھی گھر آئیں۔ ورنہ میں نے نہ کھانا کھانا ہے نہ سکول جاوں گی۔” یہ کہتے ہی اس کی آواز ڈوب گئی اور صورت روہانسی ہو گئی۔
میں نے اسے اس طرح دیکھا کہ یوں لگتا تھا ابھی پھوٹ پھوٹ کے روئی تو ابھی روئی۔ اسے تسلی دینے کو بولا۔ “ارے بیٹا، کیا حال ہے ؟ میں ٹھیک ہوں۔ کیا ہو گیا تم کو ؟ اچھا ، آ رہا ہوں۔ فلائٹس کا معلوم کر رہا ہوں۔ تم کو پتا نہیں ہو گا کورونا کی وجہ سے فلائٹس بہت کم چل رہی ہیں اور لوگوں کا رش بہت زیادہ ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ تم کیوں ایسی صورت بنا کر بیٹھی ہوئی ہو ؟ ”
“بابا۔ مجھے پتا ہے آپ کو وہاں کی پولیس نے جیل میں بند کر دیا ہے۔ ماما نے نہیں بتایا مجھے۔ وہ دو دن سے رو رہی تھیں ، میں نے پوچھا تو بولیں کہ کوئی بات نہیں ویسے ہی قرآن پڑھتے رونا آ جاتا ہے۔ مگر میں نے ان کی فون پر بات سن لی تھی۔ یہ خالہ کو آپ کے بارے بتا رہی تھیں۔ مجھے سب معلوم ہے۔ آپ نے اپنی حالت دیکھی ہے ؟ آپ کو شوگر بھی ہے۔ مجھ سے آپ جھوٹ نہ بولیں۔ آج ہی واپس آئیں بابا ورنہ میں اور حسن (اس کا چھوٹا بھائی) نہ کھانا کھائیں گے نہ سکول جائیں گے۔” اب کے وہ رو ہی پڑی۔
یہ صورتحال دیکھتے میں نے اسے بہلانے کو کیمرے کا رخ ائیرپورٹ کی جانب کر دیا۔ لوگوں کی بھیڑ تھی۔ شاپس سجی ہوئیں تھیں۔ کیفے و ریسٹورنٹس روشن تھے۔ ” اوئے کاکا، کیا ہو گیا۔ یہ دیکھو میں ائیرپورٹ پر ہوں اور باہر گھوم رہا ہوں۔ مجھے کسی نے قید نہیں کیا۔ وہ تو تین دن مجھے یہاں سم نہیں مل سکی اس لئے بات نہیں کر پایا۔ آج ہی نئی سم ملی ہے تو کال کر دی ہے۔ یہ دیکھو میں تو باہر پھر رہا ہوں۔ چپ کرو تم اتنی بڑی ہو کر بچوں کی طرح رونے لگی ہو۔ حسن کہاں ہے ؟ ۔ جیسے ہی فلائٹس چلتی ہیں میں گھر آ جاوں گا۔ گھر ہی تو آنا ہے مجھے اور کہاں جاوں گا ؟ ۔ چپ کرو اب۔ ”
اس نے بھیگیں آنکھیں آستین سے پونچھیں۔ ٹوٹی ہوئی آواز میں جواب آیا ” وہ سو رہا ہے۔ سکول سے آ کر سو گیا تھا۔ اسے جگا دوں ؟ “۔
“نہیں۔ اسے سویا رہنے دو۔ تم چپ کرو۔ کیا بچوں جیسے رو رہی ہو۔”
بیگم نے اسے ساتھ لگایا اور اسے سمجھانے لگی۔ وہ کچھ لمحوں میں ایزی ہو گئی۔ میں نے دیکھا کہ اب وہ نارمل ہو رہی ہے تو اسے ہنسانے کو کہا ” اچھا۔ بولو یہاں سے کیا گفٹ چاہیئے”۔
“کچھ نہیں چاہیئے بابا۔ مجھے وہاں سے کچھ نہیں چاہیئے۔ آپ واپس کس تاریخ کو آ رہے ہیں مجھے تاریخ بتائیں۔” اب کے اس نے قدرے مصنوعی سا مسکراتے ہوئے کہا۔
“لو، یہ کیا بات ہوئی۔ گفٹ تو آئے گا۔ میں خود دیکھ لوں گا اگر تم نے سوچ کر نہ بتایا۔ بہتر ہے بتا دو ابھی۔ میری واپسی کی تاریخ میں ابھی کافی دن ہیں۔ اگر اس سے پہلے کوئی فلائٹ مل گئی تو جلدی آ جاوں گا وگرنہ کنفرم تاریخ میں ابھی تین ہفتے ہیں۔ یہ دیکھو گفٹ شاپ ( سامنے ایک سوئینیرز کی شاپ تھی۔ میں نے کیمرے کا رخ اس شاپ کی جانب کر دیا) ”
” اچھا۔ یہ کتنی کلرفل ہیں۔ آپ یہ لے آئیں”۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
“یہ ؟ ارے یہ تو پلاسٹر آف پیرس کے چھوٹے سے مجسمے ہیں۔ گھر کی ڈیکوریشن کے لئے ہوتے ہیں۔ ان سے تم کیسے کھیل سکتی ہو۔ کوئی ایسی چیز بتاو جو تمہارے کام کی ہو ؟ “۔ میں نے قہقہہ لگاتے کہا۔
“میرے کام کے تو آپ ہیں بابا۔ آپ بس واپس آ جائیں۔” اس نے شرماتے ہوئے جواب دیا۔ لیکن کیا جواب دیا کہ اب کے میری آنکھ بھیگنے لگی۔ اس سے قبل کہ میں ائیرپورٹ پر کھڑا رو پڑتا میں نے خود کو مضبوط بناتے کہا ” اچھا چلو کافی وقت ہو گیا۔ ماما کو موبائل دو۔ پھر بات کرتا ہوں۔ تم گفٹ کا سوچ کر رکھنا”۔
اس نے خدا حافظ کہہ کر موبائل بیگم کے حوالے کر دیا۔ خود اندر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میں نے بیگم کو کہا کہ اسے ذرا سمجھانا۔ یہ جذباتی لڑکی ہے میرے معاملے میں۔ ابھی مجھے دیکھ کر پریشان ہے اور اس کو معلوم ہے کہ میرے ساتھ کیا بیتی ہے۔ بیگم نے کہا کہ ہاں اسے بھی اندازہ تھا کیونکہ یہ دو دن سے مسلسل پوچھ رہی تھی کہ بابا کی کال آئی اگر نہیں آئی تو آپ کر لیں اور میں اسے ٹال رہی تھی کہ وہاں انٹرنیٹ کا مسئلہ ہے بابا کر لیں گے جیسے ہی انہیں انٹرنیٹ ملا۔
جس دن یہ پیدا ہوئی ستمبر کا ابر آلود دن تھا۔ ڈاکٹر نے لیبر روم سے نکلتے بتایا کہ آپ کی بیٹی ہوئی ہے۔ وہ دن میری زندگی کا خوشی بھرا دن تھا اور یہ میری زندگی کی پہلی خوشی۔ جب میں نے اس کو ڈرتے ڈرتے گود میں لیا تھا اسی لمحے اس نے اپنی آنکھیں کھولی تھیں اور دنیا میں آ کر پہلی نظر اس کی مجھ پر پڑی تھی۔ اس کے کان میں آذان بھی میں نے خود دی۔
اس کی میرے ساتھ ایموشنل اٹیچمنٹ اس کے چھوٹے بھائی یعنی میرے اکلوتے بیٹے سے بھی زیادہ ہے اور میری اس کے ساتھ دنیا کے کسی بھی رشتے سے زیادہ۔ یہ بالکل میری طرح روزمرہ زندگی میں چپ چاپ اور سنجیدہ مزاج ہے۔ میں جہاں جہاں گیا اس کے لئے گڑیا لا کر اسے دیتا رہا۔
تین سال قبل اس کی سالگرہ آئی تو میں اس وقت چائنہ میں تھا۔ اسے واٹس ایپ پر وش کرتے ہوئے پوچھا کہ میں آتے ہوئے کیا گفٹ لاوں؟ ” ۔۔۔ خوش ہو کر بولی ” لیپ ٹاپ” ۔۔۔ میں نے اسے خوش کر کے کال بند کر دی۔۔
مارکیٹ گیا۔ ایک بڑے سے پلازے میں داخل ہوا اور گفٹ اینڈ ٹائے شاپ پر جا کر چینی سیلز گرل کو کہا کہ مجھے بچوں کا لیپ ٹاپ دکھائیں۔۔۔ وہ ایک لائی جو بالکل ہی بچوں والا تھا۔ اس میں ABC اور Math کے کچھ سوالات تھے اور کچھ بہت ہی چھوٹی چھوٹی گیمز۔۔ میں نے اسے کہا کہ یہ تو بالکل چھوٹے بچوں والا ہے کوئی بڑے بچوں والا دکھائیں۔ اس نے تین چار مزید دکھائے مگر وہ بھی چھوٹے بچوں والے لرننگ ٹائپ پلاسٹک کے لیپ ٹاپ تھے۔۔۔ میں نے اسے کہا کہ کوئی اور دکھائیں جو بڑے بچوں کے قابل ہو۔ بولی ” کیا عمر ہے بچے کی ؟ ” ۔۔۔ میں نے کہا ” یہی کوئی دس گیارہ سال کی ہو گی” ۔۔۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگی ” اسے اصلی کا لیپ ٹاپ لے کر دیں۔ یہ بچوں والے لیپ ٹاپ اس کی عمر کے نہیں ہیں” ۔۔۔
بیٹیاں کتنی جلدی بڑی ہو جاتی ہیں پتا ہی نہیں چلتا۔ میں اسے بچی سمجھتا ہوں مگر وہ اب بڑی ہو رہی ہے۔ تبھی تو اس نے مجھے سے 500 ڈالرز سے کم کا گفٹ نہیں مانگا تھا۔اور اب ، اب چونکہ اس کو معلوم ہو چکا تھا کہ اس کا باپ کسی پریشانی میں مبتلا ہو چکا ہے اس واسطے اس کو گفٹ کی صورت صرف اپنا “بابا” چاہییے تھا۔ اور کچھ نہیں۔۔۔
جس دن میں لاہور اپنے گھر میں داخل ہوا صبح کے 4 بج رہے تھے۔ یہ سوئی ہوئی تھی۔ میں سفری تھکاوٹ کے مارے نہا کر کپڑے بدل کر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ نجانے کیسے اس کی آنکھ کھلی۔ میرے بیڈ روم کے باہر دستک ہوئی۔ کمرہ اے سی کی وجہ سے بند تھا۔ بچوں کا اپنا کمرہ ہے۔ یہ اپنے کمرے سے نکلی اور میرے کمرے کے باہر پہنچ کر کھڑی ہو گئی۔ بیگم نے اندر سے آواز لگائی کہ آ جاو۔ یہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی اور مجھ سے لپٹ گئی۔ پھر وہیں سو گئی۔ میں نے بیگم کو دیکھا۔ اس نے مجھے دیکھا۔ ” عاریش کا گفٹ اسے مل گیا ہے”۔ بیگم نے ہنستے ہوئے کہا۔ میں نے اسے سوئے ہوئے دیکھا۔ اس کے چہرے پہ صدیوں کا سکون ٹھہرا تھا۔ کچھ دیر میں بیٹا بھی آیا۔
“بابا۔۔۔ آخر آپ آ ہی گئے” ۔ حسن یہ کہتے مجھ سے لپٹ کر دوسری جانب لیٹ گیا۔ میں نے اسے کہا ” اوئے تم لوگوں کو کس نے اس وقت اٹھا دیا ؟ “۔ وہ بولا ” بابا! عاریش کو معلوم تھا آپ 4 بجے تک پہنچ جائیں گے۔ اس نے گھڑی پر الارم لگا دیا تھا۔ وہ بج رہا تھا”۔
COMMENTS