گھروں میں باورچی خانے بڑے ہوا کرتے تھے. تب کھڑے ہو کر کھانا پکانے کا رواج نہیں تھا ۔ اور چولہے بھی نیچے فرش پر رکھے جاتے تھے۔ دیہاتی علاقوں ...
گھروں میں باورچی خانے بڑے ہوا کرتے تھے. تب کھڑے ہو کر کھانا پکانے کا رواج نہیں تھا ۔ اور چولہے بھی نیچے فرش پر رکھے جاتے تھے۔ دیہاتی علاقوں میں گیس کی سہولت نہیں تھی تو لکڑیاں جلائی جاتی تھیں ۔ گیس کے چھوٹے سلیںنڈر صرف اشد ضرورت کے تحت ہی استعمال ہوتے تھے ۔ کچن کے ایک طرف دیوار کے ساتھ دبیز چادر ، دری یا پرانا کمبل بچھا دیا جاتا تھا.
سردیوں کی شاموں ان باورچی خانوں میں بڑی رونق ہوا کرتی تھی ۔ سب بچے اور گھر والے وہاں بیٹھ جاتے، وہیں چولہے پر ہنڈیا کی بھنائی ہوتی، تازہ تازہ روٹیاں سب کے سامنے چنگیر میں اتاری جاتیں اور وہیں بیٹھ کر سب کھاتے تھے،
مونگ پھلی اور چائے کے کئی دور بھی وہیں چلتے۔ سردی میں وہ جگہ سب سے گرم اور آرام دہ لگتی تھی۔ سخت جاڑے میں انگیٹھی میں کوئلے دہکا کر رکھے جاتے اور ہر کسی میں چولہے یا انگیٹھی کے زیادہ قریب بیٹھنے کی دوڑ شروع ہوجاتی۔ بجلی چلی جاتی تو لالیٹین روشن کی جاتی جن کی روشنی میں دیواروں پر ہاتھ سے ہیولے بنائے جاتے تھے۔
بچے لکڑی کے چولہوں میں دہکتے انگاروں میں آلو دبا کر ان کو بھون کر کھاتے، کبھی تو وہ کوئلہ بن جاتے، بھنے ہوئے آلووں کا سیاہ چھلکا اتار کر نمک لگا کھانا سب سے مزے دار ڈش تھی۔ ماں سے ہنڈیا کا بھنا ہوا مسالہ فرمائش کرکے نکلوایا جاتا۔ رات دیر تک محفلیں جمی رہتیں یہاں تک کہ دہکتے کوئلے ٹھنڈی راکھ میں تبدیل ہو جاتے۔
پھر وقت بدلا، ہم ماڈرن ہوگئے نئی سہولیات آگئیں، جدید طرز پر کچن تعمیر ہونے لگے، گھروں میں سوئی گیس آ گئی اور جدید چولہے نصب ہوگئے جن میں کھڑے ہو کر پکانے کی ترتیب بن گئی۔ آہستہ آہستہ باورچی خانے خالی ہوگئے، باورچی خانوں میں سامان زیادہ اور مکین کم ہو گئے۔
ماڈرن ہونا اور ترقی کرنا مثبت چیز ہے مگر وہ جو کہر کی شاموں میں جمنے والی محفلیں تھیں۔۔۔ وہ خواب و خیال ہو گئیں۔ اب بھی پرانے گھروں کے غیر آباد باورچی خانے ان مکینوں کو یاد کرتے ہیں۔ شاید چند گھرانوں میں اب بھی ایسا ہو۔۔۔۔ لیکن اکثر میں نہیں ہے۔
کدھر گیا دور پرانا، پے گیا کیہڑی راہ۔
سارا ٹبر پی لیندا سی پایا دودھ دی چاہ۔
COMMENTS