14 اگست 1947 کو پاکستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو گیا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد رکھی گئی...
14 اگست 1947 کو پاکستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو گیا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ حکومتی مشینری کا از سر نو جائزہ لیا گیا۔ ملک کے دفاع، معیشیت، تجارت، خارجہ امور سمیت تمام اہم اداروں کی تشکیل نو کی گئی۔
قائد جانتے تھے کہ انگریزوں سے ملنے والا نظام حکومت و مملکت کسی بھی صورت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ وہ دن رات ایک کر کے، ایک نئے نظام کے تحت پاکستان کو جلد از جلد ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے تھے۔ دن بدن بگڑتی صحت سے بھی پریشان تھے۔ وہ پاکستان کو صحیح معنوں میں آزاد و خودمختار ریاست بنانا چاہتے تھے۔ لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور پاکستان کو بنے ابھی 1 سال ہی ہوا تھا کہ ہم اپنے قائد سے محروم ہو گئے۔ وہ 11 ستمبر 1948 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

قائد کی وفات کے بعد ان کے ساتھیوں نے مشن جاری رکھا۔ لیکن ملک پر قابض اصل مافیا نے آنکھیں دکھانا شروع کر دیں۔ ریاستی نظام کی ترتیب میں روڑے اٹکانا شروع کر دیئے۔ تحریک آزادی کے غازیوں، قائد کے ساتھیوں نے بھرپور جدوجہد جاری رکھی۔ پاکستان انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہو چکا تھا لیکن حقیقی آزادی کچھ اور قربانیاں مانگ رہی تھی۔ مافیا کے ساتھ جنگ میں وزیراعظم پاکستان، قائد ملت، نوابزادہ لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران شہید کر دیا گیا۔ پاکستان بنانے میں یہ پہلی قربانی نہیں تھی اور نہ ہی آخری قربانی تھی۔

قربانیوں کا سلسہ جاری رہا لیکن پاکستان آزاد نہ ہو سکا۔ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرز نے بھی بہت کوشش کی، سیاستدانوں نے بھی حسب توفیق اپنا حصہ ڈالا، طاقتور ترین فوجی جرنیل ہوں یا عوامی حمایت یافتہ سیاسی لیڈران، غلامی کی زنجیریں کوئی نہ توڑ سکا۔ نہ کسی نے زنجیریں کھولنے کی کوشش کی۔ مافیا کو زرا بھر بھی آنکھیں دکھانے والے اللہ کو پیارے ہوتے گئے۔ ملک کی بھاگ ڈور اسی کے ہاتھوں میں رہی جس نے مافیا کے ساتھ سمجھوتا کیا۔ یہ مافیا اصل میں ہے کیا؟؟؟ کون لوگ ہیں؟؟؟ کیوں اتنے طاقتور ہیں؟؟؟

یہ مافیا کوئی فرد یا ادارہ نہیں بلکہ ایک سوچ کا نام ہے۔ ایک ایسی سوچ جس نے ہمیں غلام بنایا ہوا ہے۔ کہیں برادری کے غلام تو کہیں کسی وڈیرے کے غلام اور کہیں رسم و رواج اور روایات کے غلام۔ ملک پاکستان کے چند ہزار مالک ہیں اور باقی کروڑوں غلام۔ 1947 سے اب تک یہی چند ہزار لوگ ریاستی اداروں پر قابض ہیں اور ہمیں غلام بنایا ہوا ہے۔ ملک مشکل حالات سے گزر رہا ہو تو ہمیشہ عوام سے قربانی مانگی جاتی ہے۔ یہ مافیا کبھی قربانی نہیں دیتا۔ معاشی حالات خراب ہوں تو عوام کو اعتدال کا درس دیا جاتا ہے جب کہ مافیا کی عیاشیاں ویسے ہی چلتی رہتی ہیں۔
ملک قحط سالی سے گزر رہا ہو، یا کوئی اور بحران آ جائے مافیا کو ملی سہولیات کبھی واپس نہیں لی جاتی۔ تحقیق کے مطابق پاکستان میں روزانہ 6 لاکھ بیرل سے زیادہ پٹرولیم مصنوعات استعمال کی جاتی ہیں۔ جن کی مالیت اربوں روپے میں بنتی ہے۔ کل کھپت کا تقریبا 60 فیصد سرکاری اداروں، ان کے ملازمین و افسران اور حکومتی مشینری کے استعمال میں ہے۔ سرکاری ملازمین و افسران کو گریڈ کے مطابق ماہانہ استعمال کے لیے پٹرول کا کوٹہ دیا جاتا۔ اس میں سول و عسکری اداروں سمیت اعلی عدلیہ، بیورو کریسی بھی شامل ہے۔ ان چند ہزار نام نہاد مالکان کو پالنے کے لیے ملکی خزانے سے روزانہ اربوں روپیہ خرچ کیا جاتا ہے۔

ایک ایک ادارے پر لکھنا شروع کروں تو کئی کتابیں بن جائیں گی لیکن اس مافیا کی کارستانیاں ختم نہیں ہوں گی۔ مختصرا اتنا جان لیجیے کہ لگ بھگ ہر ادارے کے ملازمین و افسران کو ملنے والی سہولیات و مراعات جو عام حالات میں شاید ہم برداشت کر لیں لیکن ڈوبتی ہوئی ملکی معیشیت کو سہارا دینے کے لیے جب عوام سے قربانی مانگی جاتی ہے تو انکی عیاشیاں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ خود تو ہر ایک کو چھ چھ گاڑیاں، مفت پٹرول دس دس ملازمین و انکی تنخواہیں، اندرون و بیرون ملک مفت سفری سہولیات میسر ہیں۔ حتی کہ، ان کے کتے بھی لگژری گاڑیوں میں سیر و تفریح کے لیے نکلتے ہیں۔ اور بات جب ملک بچانے کی ہو تو 3 مرلے کے کچے مکان میں بسنے والا وہ مزدور قربانی دے جس کے بچوں کو شاید پیٹ بھرنے کے لیے دو وقت کی روٹی بھی نہ ملتی ہو۔ ملک میں پھیلی ہر طرح کی افرا تفری، انتشار، مہنگائی و دیگر مسائل میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اس مزدور سے قربانی مانگنے والے شرم سے ڈوب کیوں نہیں مرتے؟
اس سے پہلے کہ ملک دیوالیہ ہو جائے، عوام کا غم و غصہ حد سے باہر ہو جائے، ہوش کے ناخن لو۔۔ عوام سے قربانی نہ مانگو، پہلے اپنی عیاشیاں بند کرو۔
یہ بھی پڑھیں
COMMENTS